سند باد جہازی
 |
سند باد جہازی |
سند باد جہازی
---
**سندباد جہازی کی مکمل کہانی
(خلاصہ)**
**تعارف:**
سندباد ایک بغداد کا دولت مند تاجر تھا، جو عیش و عشرت میں اپنی دولت لٹا بیٹھا۔ پھر اس نے سمندر کا رخ کیا اور سات بڑے خطرناک اور حیرت انگیز سفر کیے۔
---
### **پہلا سفر:**
ایک جزیرے پر آگ جلائی، جو دراصل ایک دیو مچھلی تھی۔ مچھلی جاگ گئی، سب سمندر میں گر پڑے۔ سندباد بچ کر ایک بادشاہ کے دربار میں پہنچا، عزت ملی، مال کمایا اور واپس آیا۔
---
### **دوسرا سفر:**
آدم خور دیو کے ہتھے چڑھ گیا۔ دیو نے ساتھیوں کو کھا لیا۔ سندباد نے آنکھ پھوڑ کر بھاگنے کی ترکیب کی اور جان بچا کر واپس آیا۔
---
### **تیسرا سفر:**
رخ پرندے کے گھونسلے میں جا گرا، جہاں ہیروں کی وادی تھی۔ بڑی مشکل سے ہیروں سمیت واپسی ہوئی۔
---
### **چوتھا سفر:**
پھر ایک دیو اور اس کی بیوی سے سامنا ہوا۔ سندباد نے ہوشیاری سے ساتھیوں کے ساتھ دیو کی آنکھ پھوڑی اور جہاز سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔
---
### **پانچواں سفر:**
قزاقوں نے غلام بنا کر بیچ دیا۔ سندباد ہاتھی دانتوں کی تجارت میں کامیاب ہوا، آزادی حاصل کی اور دولت کے ساتھ واپس آیا۔
---
### **چھٹا سفر:**
ایسی جگہ گیا جہاں زمین اچانک نگل لیتی تھی۔ وہاں کے بادشاہ کی خدمت کی، مال کمایا اور بخیریت واپس آیا۔
---
### **ساتواں اور آخری سفر:**
بیوی کے مرنے پر رسم کے مطابق اسے بھی زندہ دفن کیا گیا، مگر وہ سرنگ کے ذریعے نکل کر بچ گیا۔ اس کے بعد اس نے سمندری سفر ترک کر دیے اور نیکی، سخاوت اور عبادت کی زندگی گزارنے لگا۔شروع کرتے ہیں ان سفروں کی تفصیل
---
* پہلا سفر – مچھلی نما جزیرہ**
بغداد کا ایک نوجوان تاجر **سندباد** دولت مند خاندان میں پیدا ہوا۔ عیش و عشرت میں دولت ضائع کر دی، پھر عقل آئی کہ کچھ کمانا چاہیے۔ اس نے تجارت کا ارادہ کیا اور ایک جہاز میں سوار ہو کر سمندر کے سفر پر روانہ ہوا۔
چند دنوں کے بعد ان کا جہاز ایک خوبصورت سبز جزیرے پر رکا۔ وہاں درخت، گھاس اور پھولوں سے بھرا ہوا منظر تھا۔ سب لوگ خوش ہو کر نیچے اترے، کھانا بنایا، آگ جلائی۔ مگر اچانک زمین کانپنے لگی! سب بھاگنے لگے۔
اصل میں وہ جزیرہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی **سمندری مچھلی** تھی، جو سورہی تھی۔ جب اس پر آگ جلائی گئی، تو وہ جاگ گئی اور پانی میں غوطہ لگا گئی۔ لوگ سمندر میں گر گئے۔
**سندباد** بہتے بہتے ایک تختے کے سہارے دوسرے جزیرے پر پہنچا۔ وہاں کے بادشاہ نے اسے اپنے دربار میں جگہ دی، عزت دی، نوکری دی۔ سندباد نے وہاں تجارت بھی کی اور اچھا خاصا مال جمع کیا۔
کچھ عرصے بعد اس کا پرانا جہاز بھی وہاں آ گیا۔ سندباد واپس بغداد لوٹا، اور بہت سی دولت کے ساتھ خوب جشن منایا۔
 |
بچوں کی کہانیاں |
---
اگر آپ چاہیں تو **
دوسری قسط (دوسرا سفر: آدم خور دیو)** پوسٹ کرو تو کمنٹس میں بتائے ویسے اس کے سات سفرو کی داستان ہے
سند باد جہازی
دوسرا سفر – آدم خور دیو
کچھ عرصے بعد سندباد کو پھر سمندر کی یاد ستانے لگی۔ وہ دوبارہ تجارت کا سامان لے کر ایک نئے سفر پر روانہ ہوا۔ جہاز کئی جزیروں پر رکا، اور ایک دن ایسا جزیرہ آیا جہاں ہر طرف خاموشی اور سنسانی تھی۔
وہاں ایک بڑی سی غار ملی، لوگ آرام کرنے لگے، مگر اچانک ایک خوفناک آدم خور دیو (ایک آنکھ والا) نمودار ہوا، جس کا قد بہت لمبا اور ہاتھ بڑے بڑے تھے۔ وہ آگے بڑھا اور ایک آدمی کو اٹھا کر کھا گیا!
سب کے دل دہل گئے۔ ہر رات دیو ایک ساتھی کو کھا جاتا۔ سندباد نے منصوبہ بنایا: وہ سب نے مل کر لوہے کی سلاخیں گرم کیں اور دیو کی اکیلی آنکھ میں گھسا دیں۔
دیو چیخا، غصے سے دیواروں کو توڑنے لگا، مگر وہ اندھا ہو چکا تھا۔ سندباد اور اس کے ساتھی بھاگ کر دریا کے کنارے گئے، لکڑیوں سے ایک بیڑا بنایا، اور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایک بار پھر، سندباد بغداد واپس آیا، دولت، تجربے اور زندگی کے ساتھ۔
سب کے دل دہل گئے۔ ہر رات دیو ایک ساتھی کو کھا جاتا۔ سندباد نے منصوبہ بنایا: وہ سب نے مل کر لوہے کی سلاخیں گرم کیں اور دیو کی اکیلی آنکھ میں گھسا دیں۔
دیو چیخا، غصے سے دیواروں کو توڑنے لگا، مگر وہ اندھا ہو چکا تھا۔ سندباد اور اس کے ساتھی بھاگ کر دریا کے کنارے گئے، لکڑیوں سے ایک بیڑا بنایا، اور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
ایک بار پھر، سندباد بغداد واپس آیا، دولت، تجربے اور زندگی کے ساتھ۔
تیسرا سفر
رخ پرندہ اور ہیروں کی وادی
چند مہینے بعد، سندباد کو پھر سمندر کی مہم جوئی کی طلب ہوئی۔ وہ دوبارہ ایک تجارتی جہاز میں سوار ہوا۔ اس بار وہ ایک ایسے جزیرے پر پہنچا جہاں سبزہ، درخت اور سکون تھا، مگر خطرہ چھپا ہوا تھا۔
وہاں ایک پہاڑی پر سندباد چڑھ گیا اور اچانک بے ہوش ہو کر نیچے گر گیا۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک بہت بڑے گھونسلے میں پایا۔ یہ گھونسلا تھا ایک دیو ہیکل پرندے رخ (Rukh) کا! رخ اتنا بڑا تھا کہ ہاتھی کو بھی اپنے پنجوں میں اٹھا سکتا تھا
سندباد نے ایک ترکیب سوچی۔ اس نے خود کو گھونسلے میں موجود گوشت کے ساتھ باندھ دیا، تاکہ جب رخ اڑ کر ہیروں کی وادی میں جائے تو وہ بھی ساتھ چلا جائے۔
ایسا ہی ہوا۔ رخ نے گوشت کو اٹھایا اور نیچے ہیروں سے بھری ایک وادی میں لے آیا۔ وہاں نیچے سانپ بھی بہت بڑے تھے۔ مگر سندباد جلدی سے قیمتی پتھر اپنی تھیلی میں ڈال کر ایک تاجر کے قافلے کے ساتھ وہاں سے نکل آیا۔
واپس بغداد پہنچا تو ہر کوئی حیران رہ گیا کہ سندباد اس بار بھی بچ کر آ گیا، اور اس بار تو ہیرے اور دولت بھی اس کے ساتھ تھی
سند باد جہازی
دیو کی بیوی اور بھاگنے کی ترکیب
سندباد پھر سمندر کی مہم پر نکلا۔ ایک دن وہ ایک سرسبز جزیرے پر اترا۔ وہاں کے جنگل میں رہتے تھے ایک دیو اور اس کی بیوی، جو دونوں آدم خور تھے۔ دیو دن میں غائب ہو جاتا، اور رات کو آتا اور انسانوں کو کھا جاتا۔
ایک رات دیو کی بیوی نے شور مچایا، اور دیو ایک ساتھی کو اٹھا کر کھا گیا۔ سندباد نے ساتھیوں سے مشورہ کر کے ایک ترکیب سوچی۔ انہوں نے بانسوں کو نوکدار بنایا اور رات کو دیو کے سوتے وقت اس پر حملہ کیا، اس کی آنکھ میں بانس گھسا دیا۔
دیو درد سے چیخا، لیکن اب اندھا ہو چکا تھا۔ سب نے موقع غنیمت جانا، بھاگ نکلے، اور کشتی پر سوار ہو کر جزیرے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
غلامی اور ہاتھی دانت کی کہانی
سندباد کے جہاز کو قزاقوں نے لوٹ لیا، اور اسے غلام بنا کر بیچ دیا۔ خریدار نے اسے جنگل میں ہاتھیوں کا پیچھا کرنے کا کام دیا۔ یہ بہت خطرناک تھا، کیونکہ ہاتھی اکثر انسانوں کو روند دیتے تھے۔
سندباد نے ایک ہوشیاری دکھائی۔ وہ ایک جگہ ایسی لے گیا جہاں ہاتھی مرے ہوئے پڑے تھے — اور ہاتھی دانت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ مالک بہت خوش ہوا، سندباد کو آزاد کر دیا اور انعام بھی دیا۔
سندباد پھر ایک جہاز میں سوار ہو کر بغداد لوٹا — اور اب کی بار اس کے پاس ہاتھی دانتوں کی دولت تھی
زمین نگلنے والی وادی
سندباد ایک اور جزیرے پر پہنچا جہاں زمین اچانک پھٹ جاتی تھی اور لوگ غائب ہو جاتے تھے۔ کئی ساتھی اس خوفناک وادی میں کھو گئے۔
سندباد نے ہوشیاری سے اپنا سامان باندھ کر درخت پر چڑھ کر جان بچائی۔ بعد میں وہ ایک بادشاہ کے دربار میں پہنچا، وہاں خدمت کی، عزت کمائی اور آخر کار ایک تجارتی قافلے کے ساتھ بغداد واپس آ گیا
زندہ دفن ہونے کی رسم
سندباد نے ایک بار شادی کی، مگر قسمت نے یاوری نہ کی — بیوی مر گئی۔ اس ملک کا قانون تھا کہ اگر شوہر یا بیوی مر جائے تو دوسرا زندہ دفن کیا جائے۔
سندباد کو بھی ایک غار میں بیوی کی لاش کے ساتھ دفن کیا گیا۔ مگر اس نے وہاں ایک چوہے کی بنائی سرنگ دیکھی، اس سے نکل کر آزاد ہو گیا اور آخر کار ایک جہاز کے ذریعے بغداد واپس آ گیا۔
آخری پیغام:
سندباد نے فیصلہ کیا کہ اب وہ سمندر کا سفر نہیں کرے گا۔ وہ زندگی، تجربات، اور دولت سے مطمئن ہو کر سخاوت، عبادت اور نیکی کی زندگی گزارنے لگا۔
Comments
Post a Comment