Skip to main content

Featured

میری پوری کائنات

آخری آ رام گاہ میری پوری  "کائنات" ۔۔۔  (ایک کہانی جس کے کردار سچے ہیں) وہ ابھی نابالغ تھی کہ اس کا بھائی جو ابھی نوجوانی کی حدوں میں آ رہا تھا محلے کے ایک دکاندار سے اس کی دوستی تھی۔۔ ایک دن اس دکاندار نے اس کے بھائی کو کہا ۔۔ یار پپو!!! تیری بہن جب سودا لینے آتی ہے بالکل گڑیا جیسی دکھتی ہے۔۔ گول چہرے۔ بڑی آنکھیں۔۔ بورے بال کالی انکھیں۔۔ مجھے بہت پیاری لگتی ہے۔۔ بھائی نے کہا ہم سب کو وہ بہت پیاری لگتی ہے کیونکہ گھر کی جان ہے۔۔ سب سے چھوٹی جو ہے۔۔ دکاندار نے پپو کا ہاتھ پکڑا اور اسے دباتے ہوئے کہا۔۔ ایک مرتبہ اسے میری دکان میں دوپہر کو لے آو۔۔ پچاس روپے دوں گا۔۔ پپو نے گھبرا کر انکار کیا ۔۔ کیونکہ پپو اب اس کا مطلب سمجھتا تھا۔۔ اس نے  پپو کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا اگر تو نہیں لائے گا تو جو تیرے ساتھ کرتا ہوں سب محلے کو بتا دوں گا۔۔ مجبوری میں پپو اپنی گڑیا جیسی بہن کو بہلا  پھسلا کر دکاندار کے پاس لے آیا۔۔ اور خود ڈر کر گھر بھاگ گیا۔۔ جب دوپہر کے بعد آیا تو اس کی بہن کے ہاتھوں میں ایک جوس  کا ڈبہ کچھ ٹافیاں تھیں اور وہ دکان کے تھڑے پر نڈھال بیٹی رو رہی تھی۔۔ پپ...

محبت بانٹوں


Eid Mubarak 


محبت بانٹوں 

عید کا دن تھا۔ گلیوں میں خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ قہقہے، رنگ برنگے کپڑے، بچوں کی ہنسی، اور مہمانوں کی آمد نے ہر گھر کو جگمگا دیا تھا۔ مگر گلی کے آخری کونے میں واقع ایک چھوٹا سا پرانا سا گھر تھا، جہاں کوئی دستک نہ آئی۔


یہ گھر **خالہ زینت** کا تھا۔ بیوہ، بیمار، اور ایک بیٹے کی ماں۔ اُن کا بیٹا **احمد** محنت مزدوری کرتا تھا۔ صبح سے شام تک دھوپ میں کام کرتا، تب جا کے شام کو دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوتا۔


عید آئی تھی، لیکن اس گھر میں نئی چادریں تو دور، چولہا بھی ٹھنڈا تھا۔ زینت خالہ نے پرانے کپڑے دھو کر سکھائے، احمد نے قمیض کے پرانے بٹن سیے اور وہ دونوں اللہ کا شکر ادا کر کے بیٹھ گئے۔


"امی، آپ فکر نہ کریں، میں کچھ نہ کچھ لے آؤں گا آج۔ اللہ کے کرم سے۔" احمد نے تسلی دی۔


زینت خالہ مسکرا دیں۔ وہ جانتی تھیں کہ بیٹا دلیر ہے، مگر حالات سخت۔


اُسی گلی میں کچھ بڑے اور خوشحال گھروں میں عید کے دسترخوان سج چکے تھے۔ ہر گھر میں مٹن پلاؤ، بریانی، شامی کباب، سیوئیاں، کھیر، اور نہ جانے کیا کیا۔


**تائی رشیدہ**، **چچا اشرف**، **خالہ روبینہ**، **ماموں شفیق**، سب نے ایک دوسرے کو دعوت پر بلایا۔


"آج رات کھانے پر ہمارے ہاں آجانا، سب بہن بھائی ہوں گے!"

"ارے واہ، کل پھر ہماری طرف آ جانا، گوشت کا قورمہ بنایا ہے!"


گھر گھر سے خوشبو، قہقہے، اور مہمانوں کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ مگر ایک جگہ بلکل سناٹا تھا — خالہ زینت کا دروازہ۔


کسی نے ان کو یاد نہیں کیا۔ نہ دعوت، نہ سلام، نہ گوشت، نہ عیدی۔


احمد خاموشی سے چھت پر چڑھ گیا اور دور آسمان کو دیکھنے لگا۔


احمد نے شام تک مزدوری کی۔ اسے صرف تھوڑی سی اُجرت ملی۔ بازار گیا، کچھ پرچون کی چیزیں خریدیں اور دو چھوٹے بن۔ واپسی پر اُس نے ہر دروازے کے باہر گوشت سے بھرے تھیلے دیکھے۔


"کیا ہم اتنے غیر اہم ہیں؟" اُس نے دل میں سوچا۔


گھر آ کر زینت خالہ نے سوال کیا:


"کچھ کھانے کو لائے ہو بیٹا؟"


احمد نے بن نکالے۔ زینت خالہ نے ہاتھ جوڑ دیے:


"اللہ تیرا بھلا کرے بیٹا۔ یہ تو عید کا تحفہ لگ رہے ہیں۔"


احمد ہنسنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر اُس کے اندر ایک آنسو لرز رہا تھا۔


رات کے وقت احمد چھت پر بیٹھا تھا۔ وہ ان گھروں کی روشنی دیکھ رہا تھا جہاں آج ہر کوئی موجود تھا… مگر ان کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔


خالہ زینت نیچے جائے نماز پر بیٹھی تھیں:


> "یا اللہ… سب کو خوش رکھ۔ جو ہمیں بھول گئے، اُن کے لیے بھی دعا ہے۔ بس تُو ہمیں یاد رکھنا…"


یہ دعا احمد نے سن لی۔ اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ اب وہ شکایت نہیں کر رہا تھا، بس سوچ رہا تھا۔


اگلی صبح احمد جلدی اٹھا۔ وہ بوری اٹھائے ایک ایک گھر کے دروازے پر گیا اور بولا:


> "کیا آپ کے کچن میں کوئی بچی ہوئی چیز ہو؟ سالن، روٹی… جو ضائع نہ ہو؟"


لوگوں نے حیرت سے دیکھا، کچھ نے نظر انداز کیا، کچھ نے پرانی روٹی دے دی۔


احمد ان سب چیزوں کو جمع کر کے واپس آیا۔ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھا، اُس نے سب کچھ ترتیب دیا، گرم کیا، اور آواز لگائی:


> "اماں، آج ہم دعوت کریں گے!"


زینت خالہ نے حیرت سے دیکھا:


> "کسے بلائیں گے؟"


> "جو بھی غریب گلی میں رہتا ہے، جو بھولا گیا ہے، وہ ہمارا مہمان ہے۔"


اور پھر احمد نے ایک چھوٹا دسترخوان بچھایا۔ ایک اندھی بیوہ، ایک لاوارث بچہ، ایک ریڑھی والا، ایک مزدور سب جمع ہوئے۔


وہاں عید آئی تھی… واقعی عید۔


چند دن بعد احمد کی تصویر کسی فوٹوگرافر نے کھینچ لی جو گلی سے گزر رہا تھا۔ وہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی — "ایک غریب بیٹے کی عید"۔


اس کے بعد محلے والوں کو شرمندگی ہوئی۔


**تائی رشیدہ**، **خالہ روبینہ**، اور دیگر رشتہ دار سب معذرت کرنے آئے۔ انہوں نے گوشت، کپڑے، اور تحفے لائے۔ احمد نے سب کچھ قبول کیا، مگر ایک بات کہی:


> "ہم دعوت کے لیے نہیں جیتے، صرف محبت کے لیے۔ جب محبت کا دروازہ بند ہوتا ہے، تو عید خاموش ہو جاتی ہے۔"


اگلی عید آئی، تو سب سے پہلا دعوت نامہ خالہ زینت کے گھر پہنچا۔ احمد کے لیے نیا جوڑا، زینت خالہ کے لیے دوپٹہ اور عیدی۔


اب ان کا دروازہ بند نہیں رہتا تھا۔ لوگوں کو احساس ہو گیا تھا کہ:


> "رشتہ صرف خون سے نہیں، احساس سے بنتا ہے۔"


* کسی کو بھول جانا چھوٹا عمل نہیں، کسی کے دل کو چوٹ دیتا ہے۔

* عید کا مطلب صرف گوشت یا کپڑے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو یاد رکھنا ہے۔

* جس دروازے کو سب بھول جائیں، وہی دروازہ سب سے بڑی روشنی بن سکتا ہے۔


#EidKeDin

#GhareebKiEhmiat

#RishtonMeinBarabri

#EidSabKi

#DilJeetneWale

#AchiNiyat

#MohabbatBanto

#ZarooratmandYaadRakhein

#EidKaAsliMaqsad

#InsaniyatZindaBaad


Follow: Subscribe for latest updates

Comments