Skip to main content

Featured

میری پوری کائنات

آخری آ رام گاہ میری پوری  "کائنات" ۔۔۔  (ایک کہانی جس کے کردار سچے ہیں) وہ ابھی نابالغ تھی کہ اس کا بھائی جو ابھی نوجوانی کی حدوں میں آ رہا تھا محلے کے ایک دکاندار سے اس کی دوستی تھی۔۔ ایک دن اس دکاندار نے اس کے بھائی کو کہا ۔۔ یار پپو!!! تیری بہن جب سودا لینے آتی ہے بالکل گڑیا جیسی دکھتی ہے۔۔ گول چہرے۔ بڑی آنکھیں۔۔ بورے بال کالی انکھیں۔۔ مجھے بہت پیاری لگتی ہے۔۔ بھائی نے کہا ہم سب کو وہ بہت پیاری لگتی ہے کیونکہ گھر کی جان ہے۔۔ سب سے چھوٹی جو ہے۔۔ دکاندار نے پپو کا ہاتھ پکڑا اور اسے دباتے ہوئے کہا۔۔ ایک مرتبہ اسے میری دکان میں دوپہر کو لے آو۔۔ پچاس روپے دوں گا۔۔ پپو نے گھبرا کر انکار کیا ۔۔ کیونکہ پپو اب اس کا مطلب سمجھتا تھا۔۔ اس نے  پپو کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا اگر تو نہیں لائے گا تو جو تیرے ساتھ کرتا ہوں سب محلے کو بتا دوں گا۔۔ مجبوری میں پپو اپنی گڑیا جیسی بہن کو بہلا  پھسلا کر دکاندار کے پاس لے آیا۔۔ اور خود ڈر کر گھر بھاگ گیا۔۔ جب دوپہر کے بعد آیا تو اس کی بہن کے ہاتھوں میں ایک جوس  کا ڈبہ کچھ ٹافیاں تھیں اور وہ دکان کے تھڑے پر نڈھال بیٹی رو رہی تھی۔۔ پپ...

ایک دن (emotional based story)

           ایک دن            


ایک دن 
ایک مہینہ یا کچھ دن اوپر ہوئے تھے اسے ہمارے گھر آئے ہوئے۔ وہ میرے تایا کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کی ہمارے گھر موجودگی کے پیچھے بہت عجیب سے واقعات تھے۔ تائی ڈھائی مہینے پہلے تائی امی کا اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ تایا ابا آرمی میں سپاہی تھے۔ چہلم کے بعد وہ اپنی منزل کو لوٹ گئے۔ مگر لوٹنے سے قبل اپنی اکلوتی بیٹی کا سد باب کرنا تھا۔ اسکی رہائش کا انتظام۔
تایا ددھیالی گاؤں میں رہتے تھے۔ اور سب سے بڑے تایا بھی وہیں مقیم تھے۔ اصولاً اسے اپنے بڑے تایا کے گھر چلے جانا چاہیے تھا کہ اب ایک سنسان سے گھر میں تنہا لڑکی کیسی رہ پاتی۔ مگر میرے ابا اپنے بڑے بھائی سے منت سماجت کرکے اسے ہمارے گھر لے آئے۔ ویسے تو لوگ پرائے بچوں کو اپنے یہاں ٹھہرانے میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں مگر میرے ابا اسے ہمارے ہاں ٹھہرانے پہ بضد تھے۔ ہمارا گھر گاؤں سے بہت دور دوسرے شہر میں تھا۔ 
سو چھوٹے تایا کے واپس لوٹنے سے ایک روز قبل ابا جا کر تایا کی اکلوتی بیٹی کو ہمارے گھر لے آئے۔ 
ہم تین بھائی تھے۔ اپنی ماں کے سوا کسی لڑکی کو اپنے گھر نہ کبھی دیکھا نہ اس کا کوئی تجربہ تھا۔ میں سب سے بڑا یعنی عمر پھر احد اور پھر آدم۔ تایا کی بیٹی احد کی ہم عمر تھی مجھ سے تقریباً دو سال چھوٹی۔ شروع کے دنوں میں جب وہ آئی تو اس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے۔ یقیناً ماں کی جدائی نے اسے مغموم کر دیا تھا۔ وہ خاموش طبع اور اپنی ذات میں مگن سی لڑکی تھی۔ بہت عام سی۔ 
بی ایس سی کا پہلا سال تھا۔ گاؤں سے شہر آنے پر دوبارہ اس کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا گیا۔ وہ گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتی۔ اماں کا ہاتھ بٹا دیتی یا اپنی پڑھائی میں مگن۔ گھر میں امی کے بعد آدم تھا جس سے اسکی تھوڑی بہت بے تکلفی تھی۔ ہم اپنی دنیا میں مگن تھے اور زندگی چلتی جا رہی تھی۔ اس بہتی زندگی میں اچانک جنبش تب ہوئی۔ جب میرا ایکسیڈینٹ ہوگیا۔ یونیورسٹی سے گھر آتے ہوئے موٹر سائیکل رکشے سے ٹکرائی حادثہ اتنا شدید نہ تھا اسی لیے میرے بازو اور ٹانگ پہ چوٹیں ائیں۔ باقی سب ٹھیک تھا۔ 
یہ بس ایک ہی دن تھا میں نے اس لڑکی کو اتنا قریب سے دیکھا کہ مجھے اپنے دیکھنے پہ افسوس ہوا۔ اس سے قبل میں کبھی اتوار کو بھی گھر میں نہ ٹھہرا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے کبھی آکسی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا۔یہ میرے حادثے کا دوسرا روز تھا۔ میں پچھلا سارا دن کمرے میں پڑا رہا۔ درد تھا اور سوجن جس کے باعث بخار نے آلیا۔ 
اس روز میں صبح صبح کمرے سے باہر آیا یہ بہار کے دن تھے۔ اپریل کا آغاز تھا۔ کمرے سے نکل کر لاونج میں آ بیٹھا۔ سارا دن لیٹے رہنے سے جسم درد کرنے لگا تھا۔ یہ آٹھ بجے کا وقت تھا آدم کے سکول کی چیزیں ڈھونڈنے میں اسکی مدد کر رہی تھی۔ تایا کی بیٹی کچن میں پراٹھے بنانے میں مگن تھی۔ یہ ایک بڑا سا برآمدہ تھا جس کے ایک حصے میں دو سنگل اور ایک دو سیٹر صوفہ رکھ کے اسے لاونج کی شکل دی گئی تھی جبکہ اسی برآمدے کی دوسری جانب کھانے کی میز کے گرد چھ کرسیاں رکھ کر اسے ڈائننگ ہال بنایا گیا تھا۔ ڈائننگ ہال کے بالکل ساتھ کچن تھا۔ وہ وہیں سے برآمد ہوئی اور احد کے سامنے پراٹھا رکھ کر یہ جا وہ جا۔ ابا چائے پی کے اٹھ کھڑے ہوئے اتنے میں اماں بھی آدم کو تیار کر چکیں تھیں۔ آدم کو ابا کیساتھ سکول جانا تھا۔ اماں واپس لوٹیں تو انکا دھیان میری طرف گیا۔ میری خیر خیریت پوچھ کر میز کی جانب بڑھیں اور اپنی چائے پینے لگیں۔ 
اب وہ دوبارہ ظاہر ہوئی میز پہ بکھرے فالتو برتن سمیٹنے لگی۔ 
احد ناشتہ کر کے یونی روانہ ہوا۔ کچن سے برتن دھونے کی آواش آنے لگی یقیناً اب وہ برتیں دھو رہی تھی۔ امی نے میز سے بقیا برتن سمیٹے۔ اور اس کے پیچھے کچن کی راہ لی۔ تھوڑی دیر بعد امی میرے ناشتے کا ہلکا پھلکا سامان لائی میں نے موبائل ایک جانب رکھا اور کھانے کی جانب متوجہ ہوا۔ جب تک میں ناشتہ کرتا رہا امی میرے پاس بیٹھی رہیں۔ 
اب کچن میں جھاڑو دی جا رہی تھی۔ میں ناشتہ ختم کر چکا تھا۔ یہ ساڑھے نو کا وقت تھا۔ سبزی والے نے آواز دی تو امی سبزی لینے باہر چلی گئیں۔ وہ کچن سے نکلی تو اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ اب یقیناً کمرے سے بستر سمیٹے جا رہے تھے۔ یہ اسکا اور امی ابا کا مشترکہ کا کمرہ تھا۔ در اصل امی ابا کے کمرے کے پیچھے ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسکا دروازہ امی کے کمرے میں کھلتا تھا۔ بس وہی کمرہ اسکا مسکن تھا۔ امی کے کمرے کے علاوہ گھر میں دو اور کمرے بھی تھے۔ ایک کمرہ میرا اور دوسرا احد اور آدم کا تھا۔ اس کی گھر آمد پہ مجھے کمرہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ مہمان کو سب ے اچھے کمرے میں ٹھہرایا جائے مگر اس نے اس چھوٹے سے سٹور نما کمرے میں رہنا پسند کیا۔
امی کے کمرے کی صفائی ہو چکی تھی۔ اور اب اس کا رخ آدم و احد کے مشترکہ کمرے کی جانب تھا۔ امی سبزی خرید لائی تھیں۔ اور انکے ہمراہ محلے کی عورت بھی تھی۔ اب وہ دونوں باتوں میں مگن دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوئی بیٹھی تھیں۔ میں باہر اپنے موبائل میں مگن تھا مگر اس میں تھا کیا؟؟
یہ دس پینتالیس کا وقت تھا جب وہ میرے کمرے کی صفائی سے بھی فارغ ہو چکی تھی۔ پچھلے دو دنوں سے کمرے میں بند پڑے رہنے سے کمرے میں عجیب سے بو پھیل چکی تھی۔ میں اپنی چشم تصور سے اپنے صاف ستھرے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ 
میں برآمدے سے اٹھ کر صحن میں بچھڑے تخت پہ ان بیٹھا تھا۔ امی دوسری سرے پہ بیٹھیں مٹر کے دانے نکال رہی تھیں۔ شاید آج مکس وہج بنانے کا ارادہ تھا اسی لیے میتھی گاجر اور دیگر سبزیاں بھی انکے قریب موجود تھیں۔ 
اب وہ برآمدے کی صفائی میں جتی ہوئی تھی۔ یکایک میرے ذہن میں خیال آیا. " یہ کالج نہیں گئی آج ؟" اسی خیال کے زیر اثر میں نے امی سے اس بابت دریافت کیا۔ تو امی نے بتایا کہ اس کے کالج آج کوئی سیمینار تھا تو اس نے چھٹی کر لی۔ 
اب وہ برش سے صحن صاف کر رہی تھی۔ برش کی وجہ سے گرد و غبار اڑنے کی بجائے بس سمٹ رہا تھا۔ دھوپ زیادہ تپتی ہوئی نہ تھی وہ صحن میں بیٹھی زندگی کی طرح برش کے ذریعے کوڑا گھسیٹ کر دوسرے سرے تک لے جا رہی تھی۔ دوسرے سرے پہ چھوٹا سا کھرا تھا جہاں امی نے کپڑے دھونے کا انتظام کر رکھا تھا۔ میں امی کے پاس بیٹھا ایک اچٹتی سی نظر اس پہ بھی ڈال لیتا تھا۔ صحن کی صفائی کے بعد اس نے کھرا دھویا پھر غسل خانے کی صفائی۔ جب وہ غسل خانے سے نکلی تو اس کے پائنچے بھیگے ہوئے تھے۔ ماتھے پہ پسینے کے باعث سامنے والے چھوٹے سے بال چپکے ہوئے تھے۔ اس تمام عرصے کے دوران امی اور اسکے درمیان کوئی مکالمہ نہ ہوا تھا۔ کیا وہ امی سے بھی بات نہیں کرتی؟ یا ان دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا ہے جیسا کہ عموماً گھروں میں جھگڑے ہو جاتے ہیں؟ یہ وہ پہلا خیال تھا جو اسکی خاموشی دیکھ کر میرے ذہن میں ایا۔ 
ساڑھے گیارہ کے قریب وہ اس صفائی سے فارغ ہوئی اب اسکے رخ دوبارہ اپنے کمرے کی جانب تھا۔ کیا کوئی اتنا لاتعلق بھی ہو سکتا ہے ؟ صحن میں موجود ہم دو نفوس اس کو دکھائی نہیں دے رہے۔ کیا ایسی بھی عورتیں ہوتی ہیں جن کے پاس کرنے کو کوئی بات نہ ہو؟ اسکی طویل خاموشی میری سمجھ سے بالا تر تھی۔ وہ کمرے سے لوٹی تو اسکے ہاتھ میں ایک گلابی بڑے بڑے پھولوں والا سوٹ تھا۔ 
یہ ایس کا سوٹ تھا اور مجھے یاد آیا اس پہ یہ سوٹ بہت جچتا تھا۔ سفید ٹراؤزر کیساتھ گلابی پھولوں والی قمیض اور ویسا ہی لان کا دوپٹہ۔ اب وہ برآمدے کے دوسرے سرے پہ پڑے استری اسٹینڈ کی جانب بڑی کپڑے استری کیے۔ واش روم میں گھس گئی۔ میں مکمل طور پر موبائل میں مگن تھا۔ اور کچھ دیر بعد گیلے بالوں پہ تولیہ لپیٹے وہ غسل خانے سے نکلی۔ اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد گیلے بالوں پہ تولیہ لپیٹے وہ غسل خانے سے نکلی۔ اور کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ اب وہ ایک بار پھر ہمارے اردگرد ظاہر ہوئے۔ گلابی پھولوں والا دوپٹہ اسکے سر پہ تھا۔ اب وہ تخت کی جانب بڑھ رہی تھی۔ میں نے قصداً اپنی آنکھیں پھیر لیں۔ وہ امی کے قریب رکی۔ میں میتھی کی ایک شاخ سے کھیلتا اسکی آواز کا منتظر تھا کہ شاید اس کے لفظ کسی سمت کو نکلیں۔ وہ کچھ لمحے یونہی اماں کے قریب کھڑی رہی۔ ہمارے اردگرد لوشن کی بھینی سی خوشبو پھیل گئی۔ میں نے اپنی دکھتی ٹانگ سیدھی کی اماں نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پاس رکھی ٹوکری اسکی جانب بڑھائی جس میں مٹر کے دانے اور آلو تھے۔ اس نے ٹوکری تھامی اور پھر کچن کی جانب چل دی۔ اب وہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ اتنی خاموشی؟ اب دھوپ تھوڑی تیز ہونے لگی تو امی نے مجھے بھی اٹھنے کا حکم دیا۔ میں اب اس خاموش ڈرامے سے اکتا گیا تھا۔ میں نے اپنا فون اٹھایا اور کمرے کی جانب چل پڑا۔ کمرا حقیقت میں صاف ستھرا اور میری چشم تصور جیسا ہی تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پہ موجود گرد و غبار سے پاک تھی۔ اب مجھے بھی صاف ہو جانا چاہیے تھا۔ اسی خیال کے پیش نظر میں اپنی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر اُٹھائے غسل خانے کی جانب بڑھ گیا۔ مسواک کرنے اور منہ دھونے کے بعد میں نے لباس تبدیل کیا۔ نہانا سے گریز زخموں کے باعث تھا۔ 
میں غسل خانے سے نکلا تو ہانڈی میں چمچ ہلانے کی آواز آنے لگی۔ امی ابو کے کپڑے استری کرنے میں مگن تھیں۔ اور یقیناً کچن میں وہی موجود تھی۔ امی نے میری دھلی دھلائی صورت دیکھی تو مسکرا دیں۔ پھر یونہی ادھر ادھر کی گفتگو کرنے لگیں میں دوبارہ امی کے قریب لاونج میں بیٹھ گیا۔ 
"چچی آٹا گوندھ دوں؟" یہ اچانک سنائی دی جانے والی گلو گیر سی یہ آواز یقیناً اسی کی تھی۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ کچن کے دروازے میں کھڑی امی سے مخاطب تھی۔ امی نے آٹا گوندھنے سے منع کر دیا کہ فریج میں پڑے آٹے سے گزارا ہو جائیگا۔ وہ سر ہلاتی دوبارہ کچن میں گھس گئی۔ میں اس کی مصروفیات پہ رشک کر رہا تھا۔ ایک میں تھا جو چھٹی کے روز اٹھ کر موبائل دیکھنے اور تین وقت کے کھانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتا تھا۔ اور دوسری طرف وہ جو زیادہ فجر کے وقت سے اب تک چلتی پھرتی چھوٹے بڑے سب کا نبٹا رہی تھی۔ 
تھوڑی دیر بعد وہ ٹرے میں چاول ۔ مونگ اور اور مسور کی دال ڈالے چنتی ہوئی باہر آئی اور میز کے گرد پڑی کرسی میں سے ایک نکال کر بیٹھ گئی۔ اب وہ چاول صاف کرنے لگی۔ اور مجھ سے بہتر کون جانتا تھا کہ اس چاول دال سے میرے لیے کھچڑی بنے گی۔ یہ بھی امی کا فرمان تھا۔ میں ایک نظر اس پہ ڈال کر اب امی کو دیکھ رہا تھا۔ اب امی کسی قمیض کا بٹن ٹانک رہی تھیں۔ وہ اتنا کام کیوں کر رہی ہے؟ امی اس کا ہاتھ کیوں نہیں بٹا رہیں؟ کیا یہ تمام کام مشکل نہیں؟ تو کیا خواہ مخواہ فیمنزم نے شور مچا رکھا ہے؟ 
شاید مکس ویج کا یہ سالن تیار ہو چکا تھا۔ زیرے کی خوشبو گھر میں ہر طرف پھیل چکی تھی۔ شائد کھچڑی کی چولہے پہ چڑھانے کو تیار تھی۔ پیاز ہلکے براؤن ہوئے تو میں کچن میں داخل ہوا اب وہ نمک اور کٹی ہوئی کالی مرچ کڑاہی میں ڈال رہی تھی۔ مجھے اندر داخل ہوتے دیکھا تو سمٹ کر ایک جانب ہوگئی میں نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔ اس نے قریب رکھے گلاس سے تھوڑا سا پانی کڑاہی میں ڈالا اب مصالحے کی بھنائی کا وقت تھا۔ میں نے وہیں کھڑے بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا اس نے ڈھائی گلاس پانی ماپ کر کڑائی میں ڈال دیا۔ اب وہ سنک کی جانب بڑھ گئی۔ میں تسلی سے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتا پانی پی رہا تھا۔ ایک گلاس پانی پیا گلاس شیلف پہ دھرا۔ اس نے بھگو کر رکھے ہوئے دال اور چاول سے پانی نکالا۔ ادھر کڑاہی میں ڈالے گئے پانی میں جوش آیا اس نے چاول دال پانی میں ڈالا کر ڈھکن رکھا۔ اور تب تک میں کچن سے نکل چکا تھا میرے عقب سے کڑاہی کو ڈھکنے کی آواز ابھری۔ 
ہمارے شہر کے مضافات میں ظہر کی اذان کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ اور پھر مؤذن کی آواز گونجی۔ اذان مکمل ہوئی تو کچن سے روٹی بننے کی آواز آنے لگی۔ امی کچن سے ابھرنے والی اس آواز کی جانب متوجہ ہوئیں۔ اب وہ اٹھ کر کچن میں آ گئیں اب دونوں کے درمیان کچھ لفظوں کا تبادلہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد وہ کچن سے نکلی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اب وہ یقیناً نماز ادا کرے گی۔ 
 پانچ وقت کی نماز با جماعت ادا کرنا بچپن سے معمول تھا۔ اور اب تک یہ عادت پختہ ہو چکی تھی۔ امی سمیت کوئی بھی بغیر کسی عذر کے نماز قضا نہ کرتا تھا۔ اور وہ بھی شاید نماز کی پابند تھی۔ میں نے کبھی اسے نماز ادا کرتے تو نہیں دیکھا تھا کہ وہ نماز اپنے کمرے میں ہی ادا کرتی تھی۔ پر نماز ادا کر چکنے کے بعد منہ میں کوئی تسبیح پڑھتے ہوئے ایک دو بار دیکھا تھا۔ 
اب امی کچن میں روٹی بنا رہی تھیں۔ وہ کمرے میں جا چکی تھی اور کیں سوچ رہا تھا نماز ادا کر لوں یا زخم کے مندمل ہونے کا انتظار کروں۔ پھر اس سے قبل کہ شیطان مجھ پہ حاوی ہوتا میں نے وضو بنایا اور گھر میں ہی چار رکعت فرض ادا کیے۔ جب تک دوبارہ لاونج میں آکر بیٹھا تو آدم سکول سے لوٹ آیا تھا۔ آدم نے آتے ہی صوفے پہ بستہ رکھا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔ 
اتنے میں امی کے کمرے کا دروازہ کھلا وہ منہ میں کچھ پڑھتے ہوئے کمرے سے نکلی۔ صوفے پہ پڑا آدم کا بستہ اٹھا کر اسکے کمرے میں رکھ آئی۔ اور اب کچن کی راہ لی۔ اب وہ میز پہ برتن لگا رہی تھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ پانی کا جگ۔ ہاٹ پاٹ ۔ سالن کا برتن اور گلاس سب میز پہ سج چکے تھے۔ ابو گھر آ کے تھے جبکہ احد عنقریب لوٹنے والا تھا۔ 
اچھاااا ہماری غیر موجودگی میں اس طرح ہر ایک کام کیا جاتا تھا۔ یعنی ہم جو صبح کے نکلے شام کو لوٹتے تو کھانا بن چکا ہوتا اور گھر صاف ستھرا ہوچکا ہوتا تو اس شفافیت کے عقب میں یہ انتھک محنت چھپی ہوئی تھی۔ احد واپس آچکا تھا۔ برآمدے میں داخل ہوتے ہی اسکی نظر مجھ پہ پڑی وہ میرے پاس آیا اور میری خیریت دریافت کرنے لگا۔ 
میز پہ کھانا چن دیا گیا تھا۔ گھر کے تمام نفوس کھانے کی میز پہ اپنی اپنی نشست سنبھالے کھانے میں مگن تھے۔ سب سے پہلے ابا اور پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کھانا تناول ہوا۔ برتن سمیٹ دیے گئے اور سب آرام کی غرض سے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے۔ میں بھی احد کیساتھ اپنے کمرے میں اگیا۔ آدھے دن کے اس مشاہدے نے مجھے تھکا دیا تھا۔ میں اپنی کیفیت نہیں جان پا رہا تھا۔ میں اسے پہلے بھی بہت بار دیکھ چکا تھا مگر آج وہ اتنی مختلف کیوں لگی؟ میری نظریں کیوں اسکی طرف اٹھ رہی تھیں۔ اور میرے حواس پہ کیوں چھپانے لگی تھی۔ 
میں سوا گھنٹہ بیڈ پہ کروٹیں بدلنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ سوا تین کا وقت تھا میں آہستگی سے چلتا ہوا کمرے سے نکلا برآمدے میں آدم لاونج والے حصے میں بیٹھا اپنا سکول کا کام لکھ رہا تھا۔ دروازے سے تھوڑا آگے آیا تو ایک سنگل صوفے پہ بیٹھی وہ ڈائجسٹ پڑھنے میں مگن تھی۔ اور میں جو سوچ رہا تھا کہ اتنی دیر مسلسل کام کرنے کے بعد وہ یقیناً اب آرام کر رہی ہوگی۔ مگر اسے صوفہ پہ بیٹھا دیکھ حیران ہو گیا۔ لاونج میں بہت خاموشی تھی۔ پنکھے کی گڑ گڑ اس سکوت میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ اسی اثناء میں احد کمرے سے نکلا میں خوامخواہ کچن کی اور بڑھنے لگا۔ احد نے اردگر دیکھا اس سے قبل کہ کوئی سوال کرتا بیرونی دروازے پہ دستک ہوئی۔ احد سیدھا دروازے کی جانب بڑھا۔ میں کچن سے پانی کی بوتل اور گلاس نکال لایا۔ وہ ابھی تک اپنی سابقہ حالت میں رسالہ پہ نظریں جمائے دنیا و مافیہا سے بیگانہ بیٹھی تھی۔ 
احد دوبارہ لاونج میں آیا اور میرے دوستوں کے آنے کی اطلاع دی۔ وہ میری خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ احد نے اسے چائے بنانے کی درخواست کی اس نے رسالے کا صفحہ موڑتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پہ دھرا اور اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ گئی۔ اتنے دوست لاونج تک آگئے احد نے آگے بڑھ کر ڈائننگ ٹیبل اور لاونج کے درمیان فرق کرنے والا پردہ گرا دیا۔ وہ پردے کے پیچھے گم ہو گئی۔ اتنے میں امی کمرے سے باہر ائیں۔ میرے دوستوں کی خیریت دریافت کی اور انتظامات کا جائزہ لینے کچن میں چلی گئیں۔ چائے کیساتھ کچھ نمکو بسکٹ ٹرے میں سجا کر احد لاونج میں کے آیا۔ جب تک میرے دوست موجود رہے میرے ذہن سے وہ محو ہو چکی تھی۔ عصر کے قریب میرے دوست لوٹ گئے۔ اور پردے اٹھا دیے گئے۔
شام کے وقت میں تازہ ہوا کی غرض سے آدم کیساتھ گھر کے قریب کھلے پارک میں آگیا۔ آدم اپنے دوستوں کیساتھ کرکٹ کھیلنے لگا۔ میں سنگی بینچ پہ بیٹھا مختلف سوچوں میں کھو گیا۔ میرے ذہن میں خیالات کسی فلم کی مانند چلنے لگے۔ بچپن سے اب تک اسے بہت بار دیکھا تھا مگر کبھی اسے اتنا قریب سے دیکھنے کا اندازہ نہیں تھا۔ گھر کے اکلوتے اور لاڈلے بچے جس طرح بگڑے ہوئے ہوتے ہیں وہ ویسی بالکل نہیں تھی۔ ہمارے ددھیالی خاندان میں صرف تین ہی لڑکیاں تھیں۔ ایک یہ اور دو بڑے تایا کی بیٹیاں۔ ان میں سے ایک کی شادی ہو چکی تھی۔ 
اس وقت سے پہلے وہ کبھی ہمارے گھر رہنے نہیں آئی تھی۔ شاید اس بار بھی نہ آتی اگر میرے ابا کو اپنی ریت رواج سے اتنی محبت نہ ہوتی۔ در اصل ہماری یہ کزن بچپن ہی سے بڑے تایا کے دوسرے بیٹے کی منگ تھی۔ بڑی تائی نے کوشش کی تھی کہ اب نمرہ اور انکے بیٹے کا نکاح ہو جائے تاکہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے۔ لیکن میرے ابا چھوٹے تایا کو سمجھانے لگے کہ ابھی اسکی عمر کم ہے کم از کم بی ایس سی مکمل ہو جائے تو شادی رکھ لیں گے۔ ابا کے اس فیصلے کی کیا تک تھی یہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھا۔ مگر اب نمرہ کے رہنے کا انتظام کیا جانا تھا جو کہ بڑے تایا کا گھر تو بالکل نہیں ہو سکتا تھا۔ کہ وہاں اس کا منگیتر موجود تھا۔ بس اسی لیے میرے بابا نے اپنا گھر پیش کیا۔ 
ابا کو اپنی تربیت پہ بہت ناز تھا لیکن ابا کی نمرہ سے ایسی محبت ہماری سمجھ نہیں آتی تھی۔ سب سمجھتے تھے کہ شاید ابا کی اپنی کوئی بیٹی نہیں سو وہ نمرہ میں اپنی بیٹی دیکھتے ہیں۔ مگر سب جانتے تھے کہ جیسی محبت ابا نمرہ سے کرتے ہیں ویسی عقیدت وہ بڑے تایا کی بیٹیوں سے نہیں رکھتے۔ اب میرے خیالات کی رو اس جانب بہہ نکلی۔ چھوٹی تائی کی وفات کے وقت میرے ابا اتنے مغموم تھے۔ بس تھکے ہارے جیسے کچھ بہت قیمتی ہو گیا ہے۔ شام ڈھلنے لگی۔ قریبی مسجد سے مغرب کی اذان سنائی دینے لگی۔ میں آدم کو ساتھ لیے مسجد کی سمت بڑھ گیا۔ آج تو دل پہ کچھ عجیب سا بوجھ تھا۔

 شام ڈھلنے لگی۔ قریبی مسجد سے مغرب کی اذان سنائی دینے لگی۔ میں آدم کو ساتھ لیے مسجد کی سمت بڑھ گیا۔ آج تو دل پہ کچھ عجیب سا بوجھ تھا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد گھر لوٹا۔ تو اپنا ہی گھر پرایا اور بے گانہ سا لگنے لگا۔ آخر کیا ہوا تھا اس ایک دن میں کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ میری نظریں اسکی متلاشی تھیں۔ اور پھر وہ احد کے کمرے سے نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کی آدم پہ نظر پڑی تو کسی خیال سے چونکتے ہوئے اب آدم سے کوئی بات کہنے لگی۔
 خدایا یہ آج میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کہیں بخار کا اثر نہ ہو؟ میں اس طرح اسے کیوں سوچ رہا ہوں۔ یہ وہی نمرہ ہے ایک عرصے سے ہماری چچازاد ہے لیکن میری اس پہ آج ہی کیوں نظر پڑی۔ میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور اپنی حالت پہ ترس کھاتا میں امی کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ امی فون پہ بڑی تائی سے بات کر رہی تھیں۔ میرے دل و دماغ پہ قبضہ کرنے والی اس اداسی کا کیا علاج تھا۔ میں نہیں جانتا تھا۔ بس یونہی محسوس ہوا کہ شاید امی کے پاس مسئلے کا حل ہو۔ امی کو فون پہ مصروف دیکھ میں انکے پاس ہی بیٹھ گیا۔ خدا جانے انکے درمیان کونسے راز و نیاز ہو رہے تھے میں خاموشی سے اپنے دل میں جھانکتا اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے لگا۔ 
امی نے مجھے ٹہوکا دیا اور نمرہ کو آواز دینے کو کہا۔ شاید بڑی تائی اپنی عنقریب بہو سے بات کرنا چاہتی تھیں۔ جب امی نے مجھے دیکھا تو خودی نمرہ کا آواز دے ڈالی۔ شاید انہیں میری اس پتلی حالت پہ ترس آگیا تھا۔ سو وہ مجھے آرام دینا چاہتی تھیں۔ پر کون جانے کہ اس سے بہتر آرام تو یونی میں ہو جایا کرتا تھا۔ اس ایک دن نے تو مجھے نڈھال کر دیا تھا۔ ایسی نقاہت تو حادثے کے روز بھی نہ وارد ہوئی تھی مجھ پہ۔ یہ کیسا درد تھا یہ کیسی اداسی تھی۔ 
نمرہ کمرے میں آئی امی سے فون لیا اور بیڈ کے ایک جانب رکھے صوفے پہ بیٹھ گئی۔ اسکی آواز بہت دھیمی اور قابل سماعت نہ تھی۔ میں امی کے پہلو میں بیٹھا یونہی دکھتی ٹانگ سیدھی کی اور سوچ رہا تھا کہ کل ہر حال میں یونی جاؤں گا۔ شاید یہ دماغی توازن یونہی بہتر ہو جائے۔ 
اور پھر یہی ہوا میں اگلے روز یونی چلا آیا۔ تین چار روز بعد دوستوں سے ملا سب نے حال احوال دریافت کیا۔ کچھ دیر تک تو سب بھولے بیٹھا رہا مگر پھر اچانک سے اداسی کا دور چلا۔ دوستوں نے اسے میرے بیماری سے تعبیر کیا اور مجھے زیادہ چھیڑنے سے احتیاط کرنے لگے۔ پر یہ اداس کا دور طویل تر ہوتا چلا گیا۔فقط ایک دن تھا یہ ۔۔۔۔ اور سب تمام ہوا۔ 
سیانے یونہی نہیں کہتے کہ ایک لمحے کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ پچیس سالوں کی اس زندگی میں لاتعداد دنوں کی روداد میرے حافظے سے نکل گئی اور وہ ایک دن ایسا پختہ ہوا کہ میرے حافظے میں ثبت ہو گئی۔ 
وقت گزرتا چلا گیا اسی دوران بڑی تائی بھی ہمارے گھر وقتاً فوقتاً آتی رہی تھیں۔ وہ اپنے کالج کیساتھ ساتھ گھر کے بھی چھوٹے بڑے کام کرتی رہی۔ میری مصروفیات بڑھنے لگی میں یونی سے نکل کر اب نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرنے لگا۔ دن مصروف سا گزر جاتا تھا مگر دن کے کسی لمحے جب یہ خیال دل پہ گزر جاتا کہ وہ پرائی ہے۔ کسی اور کے نام سے منسوب ۔۔ ہمارے یہاں چند دن کی مہمان ہے تو دل اچانک ہر شے سے اچاٹ ہوجاتا۔ اور پھر چند آنسو دل کے ہی کسی کونے میں گر جاتے، حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹک جاتا۔ میری حالت کا خود مجھے اندازہ نہیں تھا۔ 
ہمارے ہاں خاندان ہی میں شادی کرنے کا رواج تھا۔ اسی باعث ہر لڑکی کسی نہ کسی چچا زاد تایا زاد یا ماموں زاد سے منسوب تھی یا بیاہی جا چکی تھی۔ جس طرح بڑے تایا کی سب سے بڑی بیٹی بڑی پھپھو کے بیٹے سے بیاہی گئی تھی۔ اور جیسے تایا کی چھوٹی بیٹی مجھ سے منسوب تھی اور وہ تایا کے چھوٹے بیٹے سے۔ 
شروع میں جب مجھے اپنے اور تایا کی بیٹی کے رشتے سے متعلق معلوم ہوا تو میں نے احتجاج کیا۔ میں خاندان میں کروائی جانے والی شادیوں کے سخت خلاف تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جب رشتے کو سمجھا تو تائی کی بیٹی سے میرے مراسم اچھے ہوگئے میں دھیما پڑ گیا۔ مگر اب یہ کسب کیسے ہو گیا کہ اچانک اب تایا کی بیٹی کی بجائے میرا دل نمرہ کی طرف ہمک رہا تھا۔ 
ڈیڑھ سال کا عرصہ یونہی گزرا کبھی زندگی نے مجھے گزار لیا کبھی میں نے زندگی ، 
اسکی بی ایس سی مکمل ہو چکی تھی۔ بڑی تائی شادی کی تاریخ لینے آنا چاہ رہی تھیں۔ میں گھر میں بہت کم پایا جاتا۔ زیادہ تر ملاقات کھانے کی میز پہ ہوتی۔ اور روٹی کے پہلے نوالے سے لیکر پانی کے آخری گھونٹ تک بات صرف اسی کی شادی کے متعلق ہوتی۔ اپنی شاید کی بات پہ کبھی نیلے دوپٹے کو درست کرنے لگتی تو کبھی خواہ مخواہ گلاسوں میں پانی انڈیلنا شروع کر دیتی۔ کبھی اچار کے بہانے کھانے سے ہاتھ روک لیتی۔ سب ایسے ہی چلتا رہا۔ 
اور ایک روز بڑی تائی شادی کی تاریخ لینے آگئیں۔ ایک ماہ بعد تاریخ طے ہائی۔ مبارکباد کی ادائیں بلند ہوئیں۔ اس خوشی کے موقع پہ مٹھائی کا ڈبہ کھول دیا گیا۔ 
اب نمرہ اور امی کے بازار کے چکر لگنے لگے۔ اسکے چہرے پہ وہی جمود تھا۔ کبھی کوئی احساس چہرے پہ نہ ابھرا تھا یا شاید میرے پاس دیکھنے والی آنکھ ہی نہ تھی۔ اسے دیکھ کر کچھ محسوس نہ ہوتا تھا وہ خوش ہے ؟ اداس ہے؟ مطمئن ہے یا غیر مطمئن ، مگر میرے اطمینان کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔ میں اپنے اعصاب پہ قابو پاتا گھر سے نکل جاتا دیر تلک تنہائی میں بیٹھا اپنی سوچوں کا رخ پھیرنے کی کوشش کرتا۔ لاکھ دل کو سمجھاتا مگر آخر ایک ہی سوال ابھرتا۔ میرا دل اسے کیوں چاہتا ہے؟ اسکا میرے ہوجانے میں کیا اچھائی ہے؟ کیا ہے جو مجھے بے چین کر رہا ہے؟ جب نہ اس نے کوئی امید دلائی نہ میری طرف سے کوئی پیش رفت پھر یہ کون اندرونی چال چل رہا ہے۔ پر یہاں تو بس لایعنی و بے یقینی سا ماحول تھا۔ 
ایک روز جب اسکی شادی میں چھ دن باقی تھے میں دل کے ہاتھوں مجبور میں امی کے کمرے کی جانب بڑھا۔ یہ اکتوبر کا مہینہ رات آٹھ کا وقت تھا۔ کمرے میں امی تنہا نئے کپڑوں کی تہہ لگا رہی تھیں۔ بابا شاید کسی کام کے سلسلے میں گھر میں موجود نہ تھے۔ جس وقت میں امی کے قریب بیٹھا تو امی کے ہاتھ کے ہلکے گلابی رنگ کا ریشمی کام دار دوپٹہ تھا جسے وہ احتیاط سے تہہ لگا رہی تھیں۔ گلابی رنگ اسی پہ جچتا تھا۔ امی میرے نظر سے اسے دیکھتیں تو شاید اسے سبھی گلابی رنگ کے جوڑے دلا دیتیں۔ مجھ پہ نظر پڑی تو امی نے کرنے والے بے شمار کام گنوا دیے۔ کاموں کے دوران امی اپنی شادی کے انتظامات پہ بھی وقتاً فوقتاً روشنی ڈالتی رہیں۔ اور پھر نجانے کس بات پہ امی کا دل بھر آیا۔ نجانے جذبات کی کس رو میں بہہ کر مجھے پوشیدہ معاملات سے آگاہ کرنے لگیں۔ کہ شادی سے قبل میرے ابا نمرہ کی والدہ سے محبت کرتے تھے۔ نمرہ کی امی میرے ابا کی خالہ کی بیٹی تھی اور بڑے تایا یعنی نمرہ کے باب سے منسوب تھیں۔ مگر پھر بھی اب کو ان سے محبت ہو گئی۔ اور میری والدہ جو ابا کے ماموں کی بیٹی تھیں ابا ان سے منسوب تھے۔ 
امی کی بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں تک جا پہنچی تھی۔ اب امی مرحومہ تائی سے متعلق بات کرنے لگیں کہ وہ فطرتاً نری نمرہ جیسی تھی۔ خاموش طبع بے ضرر سی لڑکی۔ مگر خوبصورتی میں وہ نمرہ سے کہیں درجے حسین تھیں۔ نجانے نمرہ کس پہ چلی گئی تھی۔ یہ امی کے تائی مرحومہ کیلیے ریمارکس تھے۔ جب میں نے پوچھا کہ ابا نے انس ے شادی کیوں نہ کی؟ تو امی نے بتایا کہ جو بھی معاملہ تھا تمہارے ابا کی جانب سے تھا۔ سو بس اپنی یک طرفہ محبت کیلیے وہ کسی سے لڑ نہیں سکتے تھے۔ اسی باعث چپکے بیٹھے رہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہم تمہارے دادا کے گاؤں سے دور یہاں آ کر بس گئے۔

جو بھی معاملہ تھا تمہارے ابا کی جانب سے تھا۔ سو بس اپنی یک طرفہ محبت کیلیے وہ کسی سے لڑ نہیں سکتے تھے۔ اسی باعث چپکے بیٹھے رہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہم تمہارے دادا کے گاؤں سے دور یہاں آ کر بس گئے۔ میں خاموشی سے ماں کی باتیں سنتا رہا۔ امی کپڑے جوڑ چکی تھیں اب انہیں ایک ایک کر کے سوٹ کیس میں پیک کر رہی تھیں۔ امی نے میری حد سے زیادہ خاموشی دیکھی تو ایک لمحے کو ہاتھ روک کر میری جانب دیکھا۔ پھر کسی خیال کے زیرِ اثر بولیں۔ "جب تک میں نمرہ سے ملی نہ تھی میری رائے اس سے متعلق نارمل تھی۔ جیسی کسی بھی عام سی لڑکی کے متعلق ہوتی ہے۔" نمرہ کے ذکر پہ میں نے چونک کر انہیں دیکھا۔ بات بابا سے نکل کر کس سمت چل پڑی تھی۔ " اگر میں اس سے پہلے مل لیتی تو کبھی اسے کسی اور کی دلہن نہ بننے دیتی۔ " مجھے لگا میری چوری پکڑی جاچکی ہے میں نے امی سے نظریں چرا لیں مگر انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔ "نمرہ کی والدہ میری پھپھو کی بیٹی تھی۔ میری اور اسکی بہت دوستی تھی۔ وہ بڑی بھلی مانس اور بے ضرر سی عورت تھی۔ تمہارے ابا کے دل میں آج بھی اسکی محبت موجود ہے۔ اسی لیے وہ نمرہ سے پیار کرتے ہیں۔ اور اسکی ماں کی موت نے تمہارے ابا کو بہت توڑ کے رکھ دیا ہے۔ جیسے محبوب کی جدائی کسی بھی عاشق کو تڑپا دیتی ہے۔ وہ کبھی مجھے مکمل میسر نہیں تھے۔ مگر انہوں نے کبھی میری حق تلفی نہیں کی۔ میں ان سے راضی ہوں وہ ایک اچھے شوہر اور باپ ہیں۔ انہوں نے دونوں فرائض بہت عمدگی سے نبھائے۔" امی کی آنکھیں نم ہوئیں۔ میں خاموشی سے انہیں سن رہا تھا۔ " میں امید کرتی ہوں تم بھی اپنے باپ کی طرح اچھے باپ اور ہمسفر بنو گے۔" امی کے آخری جملے پہ میں نے چونک کر دیکھا۔ " میرے بس میں ہوتا تو کبھی اسے یہاں سے جانے نہ دیتی بات اگر صرف اس کی منگنی کی ہوتی تو میں کب کی توڑ چکی ہوتی۔ لیکن اب بات خاندان کی ہے۔ اسکینگنی خاندان میں ہوئی ہے۔ اور اگر منگنی توڑنی بھی چاہیں تو اسکے کردار پہ انگلی اٹھے گی۔ یقیناً تم یہ نہیں چاہو گے۔ نہیں چاہو گے ناں؟" امی سب سمجھ کر اب نصیحت بھی کرنے لگیں تھیں۔ اور یہ سوال؟؟ کیا یہ میرے بس میں ہے۔ میری کس حرکت نے امی پہ میرے دل کی حالت بیان کی؟ کیا میرا اپنے جذبات پہ قابو نہیں رہا؟ 
مگر امی کے جواب میں میں نے نظریں جھکا لیں۔ دروازے پہ دستک ہوئی اور پھر وہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی۔ میں امی کے کمرے سے چلا آیا۔ لاتعداد سوالات میرے اردگرد تھے۔ اگر امی پہ یہ عقدہ کھل گیا تو کیا اسے بھی معلوم تھا؟ خدایا یہ کیا مصیبت ہے۔ اور پھر یہ چند دن گزر گئے۔ گھر میں وہی چہل پہل رہی۔ اسکے لب آواز سے ناآشنا ہی رہے۔ گھر میں کبھی سلائی مشین تو کبھی واشنگ مشین کی گڑ گڑ ہوتی رہی۔ امی اب کے اداس تھیں۔ وہ اپنی ہم جنس ساتھی کہ بچھڑنے پہ غم زدہ تھیں۔ کتنی مدت بعد گھر میں انکی کوئی ساتھی آئی تھیں۔ یہ فراق سبھی کیلیے جان لیوا تھا۔ 
میں اپنی ذات کے ہنگامے میں اتنا مگن تھا کہ احد اور آدم کے احساسات نہیں جان پایا۔ وہ کیسے محسوس کر رہے تھے۔ہمارے ہاں مایوں کا کوئی رواج نہ تھا۔ البتہ امی اس سے بہت کم کام کرواتی تھیں امی کا خیال تھا کہ چند دن کی مہمان ہو مہمان بن کے رہو۔ ویسے بھی تم میری عادتیں بگاڑ چکی ہو۔ چھ دن گزر گئے آج اسکی مہندی تھی میں نے آج کام سے چھٹی کی تھی۔ بقول امی کے گھر میں کرنے کے بے شمار کام ہیں۔ تین بجے کے قریب بڑی تائی کے گھر سے نمرہ کی مہندی کا سوٹ اور دوسری چھوٹی بڑی چیزیں ائیں۔ وہ اپنے کمرے میں سلائی مشین رکھے کپڑوں کی سلائی میں مگن تھی۔ جب امی نے کسی کو موجود نہ پاکر مجھے اسے بلانے کیلیے بھیجا۔ میں امی کے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے کے پیچھے موجود کمرے سے مشین کی آواز آ رہی تھی۔ میں نے قدم اس کمرے کی جانب بڑھائے۔ دروازے پہ دستک دی اور باہر سے اسے آواز دی کہ امی بلا رہی ہیں۔ مشین روک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے بھی واپسی کیلیے قدم بڑھائے۔ دل میں بے شمار خیالات گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ کیا کہوں؟ کہاں سے بات کا آغاز کروں ؟ کہوں یا نہ کہوں؟ میں دل و دماغ میں اٹھتے اسی ہنگامے کے زیرِ اثر قدم اٹھا رہا تھا کہ آہ کی آواز سنی شاید وہ کسی چیز سے ٹکرا گئی تھی۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو اسکی آنکھ میں ہلکی سے نمی تھی اور شکوہ کناں سی چیختی ہوئی نظریں میری طرف اٹھیں۔ اس ایک لمحے میں کیا کچھ نہ تھا۔ میں جلدی سے کمرے سے نکل آیا۔ پلٹ کر دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں میرا اندر پتھر کا ہو گیا تھا۔ میں واپس امی کے پاس آنے کی بجائے گھر سے ہی نکل گیا۔ 
بے دھیانی میں نجانے کہاں سے کہاں نکل پڑا تھا۔ دل و دماغ میں خیالات کا بسیرا تھا۔ کیا تھا ان نظروں میں؟ کیا کہنا چاہ رہی تھی وہ؟ پہلی بار تو کچھ کہا تھا میں وہ بھی نہیں سمجھ پایا۔ کیا ہو رہا تھا مجھے۔ بے شمار کام پڑے ہیں کرنے کو۔ آج اسکی مہندی ہے گھر میں مہمان آ رہے ہونگے۔ 
مغرب کی نماز کے بعد میں گھر آیا۔ میرے ننھیالی رشتہ دار آچکے تھے۔ ہمارے رشتہ دار بھی نمرہ کے ماموں خالہ ہی تھے۔ اسی لیے انہیں ہماری طرف سے مدعو کیا گیا تھا۔ چھوٹے تایا بھی فوج سے چھٹی لیکر دو روز قبل ہی آگئے تھے۔ میں گھر میں داخل ہوا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میری نظر اس پہ پڑی وہ صحن میں چارپائیاں بچھا کر بیٹھے مہمانوں کو شربت پیش کر رہی تھی۔ شاید یہ اس گھر میں اسکا آخری کام تھا۔ چھوٹے بچے صحن اور سیڑھیوں میں کھیل رہے تھے۔ گھر کے باہر دیگیں پک رہی تھیں۔ احد حلوائی کا مطلوبہ چیزیں فراہم کر رہا تھا۔ میں آگے بڑھ کر ماموں اور خالو سے بغل گیر ہوا۔ دوسری چارپائی پہ نانا میاں کسی رشتہ دار کی بات پہ مسکرا رہے تھے۔ میں نے نانا سے سلام دعا کی۔ برآمدے میں خالہ ، ممانیاں ، چھوٹی پھپھو اور انکی بیٹیاں سب موجود تھیں۔ 
عیشاء کے قریب کھانے کے بعد مہندی کی رسم ہونے لگی۔ گھر کے صحن میں سٹیج بنایا گیا تھا۔ مردوں کا مہندی کی رسم میں کیا کام۔ اسی باعث مرد برآمدے میں موجود تھے۔ بوڑھی خواتین چارپائیوں پہ دراز تھیں۔ جبکہ جوان لڑکیاں ادھر سے ادھر گھوم پھر رہی تھیں۔ باہر کے چھوٹے موٹے کام نبٹا کر برآمدے میں احد کے پاس ان بیٹھا۔ سٹیج مجھ سے بہت دور تھا مگر میری نظروں سے اوجھل ہر گز نہ تھا۔ وہ میری کزنوں کے درمیان سجی ہوئی بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ شاید میں پہلی بار اسے مسکراتا دیکھ رہا تھا۔ اب تو جیسے میرا بھی دل چاہ رہا تھا کہ یہ جلد رخصت ہو جائے شاید اس طرح میں کسی کام ھوگا ہو جاؤں۔ سب مہندی لگا چکے تو وہ سٹیج سے اتر کر امی کے پاس چارپائی پہ آ بیٹھی۔ دیگر خواتین بھی قریب ہو گئیں۔ امی بہت دنوں سے غمزدہ اور اداس تھیں۔ اب جیسے انہیں موقع مل گیا تھا۔ وہ روتی ہوئی نمرہ جو سینے سے لگا کر دل کھول کر روئی۔ نمرہ کو اپنی امان یاد آ رہی تھی۔ امی کو اپنی ساتھی کی رخصتی کا غم۔ ابا کو اپنی بیٹیوں جیسی بھتیجی کی جدائی کا غم ۔۔۔ سب کے پاس رونے کا بہانہ تھا ایک میں تھا جسے اپنا درد چھپانہ تھا اس عجیب سے احساس نے میرے دل کو مسل دیا تھا۔ 
اگلے روز وہ صبح کچن میں آئی۔ میں اس وقت کچن میں ہی موجود تھا۔ گھر پر سکوت طاری تھا۔ اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی۔ میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا " تم بہت اچھی ہو۔ امی تمہیں بہت یاد کرینگی۔ خوش رہو۔" میں جانتا تھا کہ وہ جواب نہیں دے گی یا صرف سر اثبات میں سر ہلا دے گی۔ مگر اس نے بس چونک کر مجھے دیکھا تھا۔ اور پھر تیزیس ے کچن سے نکل گئی۔ 
بارات وقت پہ آگئی تھی۔ باراتی بے شمار تھے۔ گویا گاؤں کا گاؤں امنڈ آیا تھا۔ دیر تک ڈھول شہنائیاں باجے بجتے رہے ہر کوئی خوش تھا۔ میری منگیتر بھی باراتیوں میں موجود تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے آج سبھی میری تباہی دیکھنے آئے ہیں۔ ہر کوئی شادماں تھا۔ میرج ہال میں گہما گہمی کا سماں تھا۔ احد یہاں سے وہاں چکر لگاتا کام میں مگن تھا۔ میری امی کبھی نکاح کے چھوہاروں کی بابت دریافت کرتیں۔ کوئی گلاب کی پتیاں پلیٹوں میں بھرنے لگا۔ جو باراتیوں کے استقبال اور شاید میرے قبر پہ ڈالنی تھیں۔ میں سینے کے بائیں جانب دکھتے حصے کو نکال پھینکنا چاہتا تھا۔ 
اب بارات میرج ہال میں داخل ہونے لگی۔ باراتیوں پہ گلاب کی پتیاں نچھاور ہونی لگیں۔ سبھی مہمان اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ مولوی صاحب پہنچ چکے تھے۔ نمرہ کی آمد کا انتظار تھا۔ میرا تایا زاد دلہا اپنے دوستوں میں گھرا دوستوں کی جانب سے کیے جانے والے ہنسی مذاق کا شکار تھا۔ سب خوش تھے۔ ہر طرف اتنا سکون تھا تو میں کیوں اس حالت میں تھا۔ میری منگیتر نمرہ سے کہیں زیادہ خوبصورت اور آج تو قیامت ڈھا رہی تھی۔ لمحوں میں نکاح ہوا۔ کھانا لگ گیا۔ اب دلہا دلہن سٹیج پہ موجود تھے۔ لڑکیوں کی جانب سے مختلف رسمیں ، اور پھر بڑے سلامی دینے لگے۔ یہ شاید بھی باقی شادیوں کی طرح عام سی تھی مگر مجھ پہ اس کا اثر ایسا جان لیوا کیوں تھا؟ رخصتی کا وقت آیا تو امی نے احد کو قرآن پاک دیا احد اسے کتاب اللہ کے سائے میں رخصت کرنے لگا۔ دلہن کی گھٹی ہوئی چیخوں سے امی تڑپ گئیں۔ اور دونوں یوں گلے لگ کر روئیں جیسے وہ ہمیشہ سے اسی گھر میں مقیم تھی۔ ابا کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ آدم اپنی موج میں تھا۔ میں کیا کرتا؟ میرے پاس تو رونے کو کوئی وجہ بھی نہ تھی۔ 
شادی ہال مرگ ہال کا سماں پیش کرنے لگا۔ سبھی بزرگ خواتین رو پڑیں سب سمجھ رہے تھے کہ شاید دلہن کو اپنی مرحومہ ماں کی یاد آگئی۔ خدا جانے کیا وجہ تھی۔ کون جانے کیا وجہ تھی۔ 
بس جیسے تیسے اسے رخصت کر دیا احد دلہن کیساتھ گیا۔ میرا جانا تو کسی طور مناسب نہ تھا کہ میری منگیتر اسی گھر میں موجود تھی۔ اس حالت میں بھی سب کو رسمیں یاد تھیں۔ 
گھر لوٹے تو امی ابھی تک اسی کیفیت میں تھیں۔ نمرہ کی والدہ کی عدم موجودگی امی کو بھی مغموم کر رہی تھی۔ مگر سب خوش تھے کہ اپنے فرض کو احسن طریقے سے انجام دے دیا۔ امانت امانت دار کو لوٹا دی گئی تھی۔ 
اور میرے جیسے کچھ لوگ بہت محروم ہو گئے تھے۔ پہلے اسکی والدہ کی وجہ سے میرے والد مغموم رہے اور اب اسکی وجہ سے میں۔۔ ابا کی محبوبہ انکے بچوں کی چچی بن گئیں تھیں اور میری محبوبہ میرے بچوں کی ممانی۔ 
خدا جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کب تک ہم محروم ہوتے رہینگے۔ میں ڈر جاتا ہوں کہ اگر میری بیٹی کسی ایسے دوراہے پہ آن کھڑی ہوئی تو میں اپنی بیٹی کیلیے کچھ نہ کر سکا تو کسیا باپ ہوں گا میں؟ مجھے اپنے بیٹے سے زیادہ بیٹی کی فکر ہے۔ سوچتا ہوں کچھ بھی ہوجائے۔ اس کی اولاد اچھی شکل و صورت کی ہو یا عام ۔ میں اپنے بچوں پہ انکا سایہ نہ پڑنا دونگا۔ کچھ لوگ خواہ مخواہ دل میں اتر جاتے ہیں۔ زندگی ٹھہر جاتی ہے۔ انسان ایک زخم اپنے ہمراہ اٹھائے پھرتا ہے کبھی پٹی کرتا ہے کبھی کھول دیتا ہے۔ بہت مشکل ہے کہ ایسے زخموں سے شفا میسر ہو۔ 
سب رخصت ہوگیا تھا۔ ہمارا گھر اسی جون میں واپس آگیا تھا۔ پھر سے گھر کے کام امی کے ذمہ تھے۔ اب پھر سے ہم کبھی اپنی امی کا ہاتھ بٹانے لگے تھے۔ اور امی اب نمرہ کی طرح گھر میں خاموشی سے ایک کونے سے دوسرے کونے بولائی بولائی پھرنے لگیں۔ خدا جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہنا تھا۔ فقط ایک دن کی تو بات تھی۔ پھر یہ عمر بھر کا روگ کیسے لگ گیا؟ خدا جانے۔ ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید کہانی/ داستان/ناول ھارر کے لیے مجھے feedback کریں ❤️

Comments